پاکستان میں ڈپازٹ انشورنس کا فقدان بینکاری نظام کی ایک اہم کمی
پاکستان میں کوئی ڈپازٹ سلاٹ نہیں۔,نقد انعام کا موقع,سلاٹ گیمز پر مفت اسپن کو کیسے متحرک کریں۔,اسلام آباد آن لائن سلاٹس
پاکستان میں ڈپازٹ سلاٹ یا ڈپازٹ انشورنس کی عدم موجودگی بینکوں میں عام صارفین کے لیے خطرات اور غیر یقینی صورتحال پیدا کرتی ہے۔ یہ مضمون اس مسئلے کے پس منظر اور ممکنہ حل پر روشنی ڈالتا ہے۔
پاکستان کے مالیاتی اور بینکاری نظام میں ڈپازٹ انشورنس کا تصور اب تک واضح طور پر موجود نہیں ہے۔ عام شہریوں کی بچتوں کو محفوظ بنانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر ڈپازٹ سلاٹ یا ڈپازٹ انشورنس کے نظام کو اہم سمجھا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں اس کی عدم دستیابی سے نہ صرف صارفین کا اعتماد متاثر ہوتا ہے بلکہ معاشی استحکام کے لیے بھی چیلنجز پیدا ہوتے ہیں۔
ڈپازٹ انشورنس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی بینک کو مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑے یا وہ دیوالیہ ہوجائے تو اس کے صارفین کی جمع شدہ رقم کا ایک خاص حصہ حکومت یا مربوط ادارے کی طرف سے واپس کر دیا جائے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ نظام کئی دہائیوں سے کامیابی سے چل رہا ہے، جیسے امریکا کا FDIC یا بھارت کا DICGC۔ لیکن پاکستان میں ایسا کوئی جامع نظام نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے سرمایہ کاروں کو غیر محفوظ محسوس ہوتا ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستانی بینکوں کے ساتھ کچھ غیر مستحکم واقعات سامنے آئے ہیں، جیسے کچھ چھوٹے بینکوں کی کارکردگی میں کمی یا انہیں ریگولیٹری اداروں کی طرف سے پابندیاں۔ ایسے حالات میں اگر ڈپازٹ انشورنس کا نظام ہوتا تو عوام کا اعتماد برقرار رہتا۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اس نظام کے بغیر پاکستان میں بینکاری شعبے کی ترقی محدود ہو سکتی ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں لوگ بینکوں پر بھروسہ کرنے سے پہلے ہی ہچکچاتے ہیں۔
حکومت پاکستان کی طرف سے اس سمت میں کچھ اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے، جیسے نیشنل ڈپازٹ پروٹیکشن کارپوریشن کا قیام، لیکن یہ منصوبہ ابھی تک عملی شکل اختیار نہیں کر سکا۔ ماہرین کے مطابق اسے ترجیحی بنیادوں پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صارفین کو تحفظ مل سکے اور بینکاری نظام کو عالمی معیارات کے مطابق ڈھالا جا سکے۔
مختصر یہ کہ ڈپازٹ سلاٹ یا ڈپازٹ انشورنس کی عدم دستیابی پاکستان کے معاشی ڈھانچے کی ایک بڑی کمزوری ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پالیسی سازوں کو فوری اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو اور ملک کا مالیاتی شعبہ مستحکم ہو سکے۔
مضمون کا ماخذ:مصری ڈریمز ڈیلکس